Posts

Showing posts from November, 2019
پتھروں کی قید باھر جون کے آخری دنوں کا سورج قیامت اٹھائے کھڑا تھا اور اندر وہ اپنی تمام حشر سامانیاں لیے میرے سامنے بیٹھی تھی. بالوں کا جوڑا سر کے پیچھے گردن اٹھائے ہوئے تھا. بجلی بند تھی سو پنکھا بھی بند تھا. پسینہ ماتھے پہ موتیوں کی طرح بکھرا پڑا تھا. کان کے پیچھے سے پسینہ لمبی صراحی جیسی گردن پہ نئے راستے کھوجتا سینے کی طرف گامزن تھا. گرمی کی مہربانی سے دوپٹہ میز پہ دھرا تھا اور وہ لان کی پتلی قمیض سے مجھ پہ دو نالی بندوق تانے بیٹھی تھی. "کب تک راشی کب تک، ایسے سب کے سونے کے بعد دوپہر کالی کرنے آتی رہوں گی، چاچا کمال رشتے کی بات کر چکے ہیں ابا سے، سب راضی ہیں، میں کیا کروں، تم کیا کرو گے" اس کی بھوری آنکھوں میں التجائیں تیر رہی تھیں "مجھے دے گا رشتہ تمہارا ابا؟ کیا ہے میرے پاس، یہ اماں ابا کا چھوڑا ہوا گھر، یہ ایک سکول ویگن اور بس؟ میں موچی کا پتر ہوں آسیہ ،تُو سیدانی ہے، تیرے ابا کے مریدوں کے جوتوں کی عزت مجھ سے زیادہ " بات مکمل بھی نہ ہونے دی اس نے اور میرے ہونٹوں پہ اپنے رس بھرے ہونٹوں کی مہر لگا دی. وہ آدھی چارپائی اور آدھی میری داہنی ٹانگ پہ بیٹھی...
مظلومیت جاہلیت   تو   جاہلیت   عورت   دشمنی   میں   ہمارے   سماج   کا   دانشور   طبقہ   بھی   کس   قدر   پیش   پیش   رہا۔ ‏ اس   تعصّب   کی   جڑیں   تاریخ   کی   ناہموار   زمین   میں   بہت   گہری   ہیں۔   فلسفے   اور   مذہب   کے   شارحین   نے   عورت   کو   ایک   وحشی،   نجس،   بے عقل   اور   نامکمّل   مخلوق   بنا   کرمعاشرے   کے   آگے   مضحکہ   خیز   انداز   میں   پیش   کیا۔ سقراط   نے   اسے   دفلی   کادرخت   قرار   دیا   توافلاطون   نے   کہا   کہ   مردوں   کے   برے   اعمال   انہیں   عورت   بنا   دیتے   ہیں،   ارسطو   نے   اپنے آقاؤں   کی   تقلید   میں   مرد   کو   بادشاہ   اور ...