Posts

Showing posts from 2020
  لڑائی  محلے میں شائستہ کی چیخیں اور اس کے چار چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں تھیں اور آدھا محلہ چھت کی منڈیر پہ اور باقی آدھا اپنے گھروں کے دروازے کے باھر کھڑا تبصرہ کر رہا تھا کہ یہ تو روز کا معمول ہے، جیدے (جاوید) کا دماغ ہر وقت تپتی کڑاہی میں رہتا ہے، شیستا (شائستہ) بیچاری کی تو ہاری گئی جاوید اور شائستہ کی شادی کو چار سال سے اوپر ہو گئے تھے. جب شائستہ پہلی بار دلہن بنی گھر پہنچی تو محلے کی کتنی ہی خواتین جل بھن گئی تھیں. ایک تو شائستہ کا سرخ لہنگا بہت خوبصورت تھا، اس پہ شائستہ کے چست بدن پہ سج بھی بہت رہا تھا. دوسری وجہ شائستہ کی صاف رنگت اور اونچا قد تھا. جاوید کی لاٹری نکل آنے پہ خوش جاوید کے سوا اور کون ہو سکتا تھا پہلی لڑائی کب ہوئی ہو گی، معلوم نہیں.. مگر پہلی لڑائی جو سارے محلے میں سنی گئی، وہ شادی کے تیسرے چوتھے ہی ہفتے میں ہوئی تھی. بات گالیوں سے نکل کے مار پیٹ تک پہنچ گئی تھی جب محلے والے چھڑانے پہنچے جاوید اپنی بجلی کے ساز و سامان کی دوکان سے لوٹا تھا اور شائستہ نے ابھی تک توا چولہے پہ نہیں دھرا تھا. سو جاوید کا دماغ چولہے پہ چڑھ گیا اور لڑائی مارپیٹ سے 'طلاق' تک...
میرا اور تمہارا خدا ایک صاحب جو خدا اور مذہب سے خاصے بیزار ہیں مجھ سے بولے کہ انسان اپنے ہونے کا، اپنے آس پاس ہر شے کے ہونے کا سبب اس کے پیچھے چھپی ہوئی کسی ان دیکھی یا ماورائے عقل تحریک میں کیوں ڈھونڈتا ہے؟ سائنس، منطق، لاجک، ذہانت، ارتقائی عمل اور مشاہدے پر اکتفا کر کے ہی کوئی کھوج کیوں نہیں نکالتا؟ یہ خدا پرستی کیوں نہیں جاتی لوگوں میں سے؟ میں نے کہا معنویت کے حصول میں آزاد انسان پر پابندی کیوں، آپ بھلے فری تھنکر بنیں لیکن یہ فکری زور زبردستی کیسی۔ جو جیسے کر رہا ہے کرنے دیں۔ ڈھونڈنے دیں جو جیسے ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ یہ سب گھڑی گھڑائی گیم لگتی ہے حکمرانوں اور راجدھانیوں کی تاکہ انسان کو مذہبی گروہوں میں بانٹ کر ان میں تفرقہ ڈالا جائے اور ان پر نسل در نسل حکومت کی جا سکے۔ بولے کہ ان قِصوں کے ذریعے متلاشی انسان کو معنویت دیتے خدا کے نام پر قابو کر کے ریاست کی اطاعت درکار ہوتی ہے۔ کہنے لگے کہ کوئی ایشور اور اس کا مظہر بنے رنگ برنگے بھگوان بنا رہا ہے، کوئی خدا کو عرش پر بٹھا کر اور اس کے لاکھوں برگزیدہ بندے اور فرشتے گِنوا رہا ہے۔ کوئی مریم کا خداوند سے ر...
عیسائیت ہو یا اسلام “جہالت کو ملائیت پر فخر ہے یہ 14 ویں صدی کے وسط 1347 – 1350 کی بات ہے یورپ کو طاعون کی بیماری نے پکڑ لیا اور یورپ کی 5 کروڑ آبادی اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئی مشرق وسطیٰ، ہندوستان اور چین کو ملا کر اس طاعون نے کم از کم 7 کروڑ 50 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس زمانے کو آج “سیاہ موت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ طاعون ایک وبائی مرض ہے جو چوہوں سے پھیلتی ہے اور انسانوں کو منتقل ہوکر دنوں کے اندر بستیاں ویران کردیتی تھی جو بستی ویران نا ہوتی اسے اجاڑ دیتی تھی۔ اسکا واحد حل گھر میں قید ہوجانا تھا اور پھر سائنسدان نے اسکا علاج دریافت کرلیا طاعون آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر اب جان لیوا نہیں رہا۔ یہ سب بتانے کا مقصد ہے کہ یورپ میں جب طاعون پھیلا تو سرکار کی طرف سے صفائی کا خیال رکھنے اور گھروں میں رہنے کے احکامات جاری ہوئے مگر اس وقت یورپ میں چرچ کی حکومت تھی پادریوں نے اسے “خدا کا عذاب” کہا اور اعلانات کرکے لوگوں دعا اور توبہ کے نام پر چرچ میں بڑے بڑے اجتماعات کرنے شروع کردئیے اور لوگ چرچ جاتے پادریوں کو چندہ دیتے اور واپسی پر طاعون کی بیماری لیکر گھر مرنے آ جاتے۔ ج...