عیسائیت ہو یا اسلام “جہالت کو ملائیت پر فخر ہے
یہ 14 ویں صدی کے وسط 1347 – 1350 کی بات ہے یورپ کو طاعون کی بیماری نے پکڑ لیا اور یورپ کی 5 کروڑ آبادی اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئی مشرق وسطیٰ، ہندوستان اور چین کو ملا کر اس طاعون نے کم از کم 7 کروڑ 50 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس زمانے کو آج “سیاہ موت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
طاعون ایک وبائی مرض ہے جو چوہوں سے پھیلتی ہے اور انسانوں کو منتقل ہوکر دنوں کے اندر بستیاں ویران کردیتی تھی جو بستی ویران نا ہوتی اسے اجاڑ دیتی تھی۔ اسکا واحد حل گھر میں قید ہوجانا تھا اور پھر سائنسدان نے اسکا علاج دریافت کرلیا طاعون آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر اب جان لیوا نہیں رہا۔
یہ سب بتانے کا مقصد ہے کہ یورپ میں جب طاعون پھیلا تو سرکار کی طرف سے صفائی کا خیال رکھنے اور گھروں میں رہنے کے احکامات جاری ہوئے مگر اس وقت یورپ میں چرچ کی حکومت تھی پادریوں نے اسے “خدا کا عذاب” کہا اور اعلانات کرکے لوگوں دعا اور توبہ کے نام پر چرچ میں بڑے بڑے اجتماعات کرنے شروع کردئیے اور لوگ چرچ جاتے پادریوں کو چندہ دیتے اور واپسی پر طاعون کی بیماری لیکر گھر مرنے آ جاتے۔ جب مرض ہر طرف پھیل گیا تو چرچ کو تالا لگا کر پوپ غائب ہوگئے۔
پھر یورپ سے طاعون اور پادری ایک ساتھ ختم ہوگئے آج دونوں کہیں نظر تو آتے ہیں مگر عملی زندگی میں انا کا کردار ختم ہوگیا ہے عوام نے  چرچ اور پادری کو معاشرہ کا ناسور سمجھتے ہوئے اپنی زندگی سے بےدخل کیا تو بائبل اور خدا سے تعلق بھی ختم کرلیا۔ آج کے یورپ میں بھی پادری، چرچ، بائبل اور خدا موجود ہیں لیکن انکی حیثیت بقول “ملک جہانگیر اقبال” گھر کے اُس بیمار شرابی سربراہ جتنی ہی ہے جسے گھر کے مکین بوجہ مجبوری عزت تو دیتے ہیں پر اُسکی باتوں کو ٹکے کی اہمیت نہیں دیتے۔ یورپ ماضی کے اُس دور کو پاپائیت کا تاریک دور کہتا ہے جسے وہ کبھی دہرانا نہیں چاہتا۔
پادری وبائی مرض کے پھیلنے پر اسے خدا کا عذاب کہتا تھا اور کوئی سائنسدان اسکی دوائی ایجاد کرتا تو قدرت کے خلاف جنگ کہا جاتا۔ اسی طرح  ہر نئی سائنسی ایجاد پر مولوی نے اسے شیطان کا آلہ کہا تو کبھی قیامت کی نشانی کہا اور چند سال بعد اسے اپنا لیا۔ یورپ کے پوپ کی طرح ہمارا مولوی بھی ہمیشہ زمانے سے بیس تیس سال پیچھے ہی چلتا رہا ہے پہلے کفر اور شیطان کے فتوی لگائے ہیں جب دنیا اس میں ترقی کرجاتی ہے پھر ان کی عقل میں بات آتی ہے۔
جیسے سپیکر کی ایجاد پر مولوی نے کہا تھا اس میں شیطان بولتا ہے اور آج پوری دنیا کو یقین ہے سپیکر میں شیطان بولتا ہے مگر مولوی نہیں مانتا۔
طاعون کی وبا 1896 میں برصغیر میں بھی پھیلی تھی جس میں 15 لاکھ لوگ مار دئیے تھے۔ یہاں بھی یورپ والی کہانی دہرائی گئی اور ہماری مسجد و مولوی نے چرچ اور پادری والا کردار ادا کیا لیکن چونکہ برصغیر میں مولوی زیادہ طاقتور اور عوام بالکل ان پڑھ تھی اس لئے اس وبا کے بعد “ملائیت” اور مضبوط ہوگئی اور آج تک اپنی اکڑ اور ضد پر اڑی ہوئی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں پاکستان پر جب بھی کوئی مصیبت آئی ہے عوام ایک طرف اور ملائیت مصیبت کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ کورونا کو ہی دیکھ لیں اول تو مسجد سے اسکی موجودگی کا ہی انکار کیا گیا اور جب احساس ہوا تو کسی کو یہ تبلیغ بند کروانے کی سازش،کسی کو عزاداری کے خلاف ڈالروں اور ریالوں کی سازش، کسی کو مزارات کی حرمت کے خلاف کارروائی نظر آئی۔ اور مولوی مذہبی جذباتیت ابھار کر میل جول کو مزید بڑھانے پہ اکساتے ہوئے نظر آئے۔ جب حکومت اور عوام مولوی کے خلاف کھڑے ہوئے تو انہیں سنگینی کا احساس ہوا ہے۔
کورونا ایک وبائی بیماری ہے اسکا حل مسجد اور مولوی نے نہیں انتظامیہ اور ڈاکٹر نے طے کرنا ہے۔ ملائیت کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان سے انکا کردار ختم ہوتا جارہا ہے آئندہ ایک دو دہائی بعد یہاں مسجدیں اور مولوی تو موجود ہوں گے مگر یورپ کی طرح انکا کردار ختم ہوچکا ہوگا اگر مولوی یہ نہیں چاہتا تو اسے “جہالت” چھوڑ کر ہر مشکل وقت میں پاکستان اور عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔
اگر کعبہ کی صرف آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کی تصاویر اٹھا کر دیکھ لیں تو وہاں عام دنوں میں اکا دکا کے طواف کے علاوہ کوئی نہیں ملتا بلکہ حج میں بھی چھوٹی سی جگہ پر رش نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے یہ تو اب ہمارے مولویوں کے حج و عمرہ کے فتووں اور پیکج کی وجہ سے اتنا رش رہنے لگا ہے ورنہ رب کعبہ کو مومن کے دل کو آباد کرنے سے ذیادہ اپنے گھر میں رش کرنے سے کیونکر غرض ہوسکتی ہے میں مان ہی نہیں سکتا کہ رب کے بندے بھوک سے بلکتے ہوں جنگیں مسلط کرنے پر خوف و ہراس کا شکار ہوں وبائی بیماریوں سے مرتے رہیں اور مسلمان سارا زور کعبے کو آباد کرنے میں لگاتا رہے۔ یہاں پر اللہ کی رضا کچھ اور ہے اور مولوی کی ترجیح کچھ اور ہے۔

بقلم خود۔ عبدہ

پہلا نوٹ۔ یہاں جہالت سے مراد فہم و فراست سے عاری ہونا اور اکڑ اور ضد ہے۔
دوسرا نوٹ۔ فتوؤں سے باز رہیں یہاں ملائیت سے مراد اسلام کے نام پر عوام کو مشکل میں پھنسانے والے چند فیصد ہیں۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ٹرانس جینڈر ایکٹ (اردو متن)