گڑیا
وہ اپنا بدبودار جانوروں جیسا وجود لے کر گڑیا کے اوپر جھک رہا تھا اور گڑیا جیسے ایک لاش کی مانند آنکھوں میں پانی کا سمندر لئے چھت کو گھور رہی تھی منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی لیکن اندر دنیا جہاں کا شور تھا،
نام تھا یاسمین ابا پیار سے گڑیا کہتے تھے، پھر گھر والے رشتہ دار محلے والے سب گڑیا کہنے لگے،
گڑیا تین بھائیوں اور اور دو بہوں میں سب سے چھوٹی تھی، باپ قدرت اللہ گاؤں کی ایک چھوٹی سی مسجد کا امام تھا ماں ایک سیدھی سادھی گھر دار خاتون تھی قدرت اللہ کی بات ماں کیلئے فرض ہوا کرتی تھی،
وقت گزرا گڑیا نے بھی باقی بہن بھائیوں کی طرح گاؤں میں موجود پرائمری سکول سے پانچویں پاس کی اور گھر داری میں مصروف ہوگئی،
ابا کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی گڑیا کے ہاتھ پیلے ہوتے دیکھے، لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی قدرت اللہ عشاء کی نماز پڑھا کر واپس گھر آیا لیکن صبح فجر کی نماز کیلئے اٹھ نہ سکا،
گڑیا کیلئے یہ دکھ آسمان کے پھٹ جانے سے کم نہیں تھا اسکا باپ ہی تو گھر میں ایک انسان تھا جو گڑیا سے پیار کرتا تھا اسکا ماتھا چومتا تھا،
گڑیا بڑی ہورہی تھی جوانی کی دہلیز پر پہنچ کر بھی اس نے شرم و حیاء کو اپنائے رکھا اسکی خواہش تھی اسکا پیار اسکی محبت چاہت اسکے وجود اور روح کا مالک اسکا شوہر ہو بس،
ایک دن گڑیا کی ماں نے بتایا کہ کل کوئی دور پرے کے رشتہ دار آرہے ہیں تمہیں دیکھنے گڑیا نہ چاہتے ہوئے بھی چپ رہی، وہ آئے اور رشتہ پکا ہوگیا ،
گڑیا سن رہی تھی کہ وہ جلدی شادی کرنا چاہتے ہیں،
خیر بڑے بھائیوں اور ماں نے شادی کی تاریخ تہہ کردی،
شادی ہو گئی گڑیا کے بھائیوں اور ماں نے صرف ایک ہی بات سمجھائی کہ اب تمہارا وہی گھر ہے تمہارا شوہر تمہارا خدا ہے تمہاری ساس تمہاری ماں ہے تم کبھی زندہ انکو دکھ دے کر اس گھر میں واپس نہیں آنا وہ جو بھی کہیں جیسے بھی ہو اب تمہارا مرنا جینا وہی ہے،
شادی وہی روائتی انداز میں ہوئی دن گزرتے گئے شادی کے چھ ماہ تک کوئی اولاد جیسی خوشی گڑیا کو نصیب نہ ہوئی تو ساس نے باتوں باتوں میں سنانا شروع کر دیا،
نندوں نے بھی اپنی زبان کی مٹھاس دیکھانا شروع کر دی، گڑیا کہاں جائے کس سے کہے۔؟
خیر ایک دن ساس نے صاف کہہ دیا بات سن کڑیے بہت ہوگیا اب ہمیں اولاد چاہیے ورنہ اپنے گھر والوں کو بُلا وہ تمہں لے جائیں ہمیں یہ بانجھ عورت نہیں چاہیے،
گڑیا نے بھری آنکھوں کیساتھ اپنے شوہر کی طرف دیکھا جو منہ لٹکائے چارپائی پر بیٹھا ماں کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا،
صبح ہوتے ہی ساس بولی چل ساتھ والے گاؤں ایک بابا جی ہیں تمہیں لے کر جانا ہے وہاں بہت پہچے ہوئے ہیں گڑیا چپ کرکے اپنی ساس کے ساتھ چل پڑی،
وہاں کافی عورتوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا بدشکل اور بدبودار کپڑے پہنے ایک بابا بیٹھا تھا گڑیا اسے دیکھ کر ہی اندر سے ڈر گئی تھی لیکن کیا کر سکتی تھی،
خیر جب لوگ چلے گئے بابا جی نے گڑیا کی طرف بڑی بھوکی سی نظروں سے دیکھتے ہوئے اسکی ساس سے پوچھا کیا مسئلہ ہے مائی،
وہ بولی بابا جی یہ میری بہو ہے دو سال سے بچہ نہیں ہوا، بابا جی نے ہاتھ بلند کیا اور زور سے بولا بس یہی بات۔؟
گڑیا سہم گئی بابا جی نے کہا چلو اٹھو لڑکی اس کمرے میں چلو، تم پر کوئی جادو ہے اسکا توڑ ضروری ہے،
گڑیا نے سہمی نظروں سے ساس کی طرف دیکھا ، ساس نے فوراً ایسے انداز سے گڑیا کی طرف دیکھا کہ تم ابھی تک گئی کیوں نہیں،
گڑیا ڈرتے ہوئے بھاری قدموں سے کمرے میں چلی گئی،
بابا کمرے میں آیا اندر سے دروازہ لاک کیا گریا ڈر کے مارے کاپنے لگی بابا پاس آیا اپنے گندے دانت دیکھاتے ہوئے بولا تیرا بندہ ٹھیک نہیں ہے میں تمہیں اولاد دے سکتا ہوں یا پھر تیرے ساس تمہیں طلاق کروا دے گی تو تم ہوتی رہنا زلیل دنیا بھر میں،
گڑیا جو سہمی ہوئی ایک کونے میں بیٹھی تھی اسکے کانوں میں غریب بھائی اور بوڑھی ماں کی آواز گونجنے لگی کہ کبھی واپس مت آنا وہ جو کہیں وہ کرنا ،
گڑیا دنیا جہاں کے شور کے درمیان زندہ لاش کی مانند بیٹھی تھی جس نے کبھی اپنے مرد کے علاوہ کسی دوسرے مرد کو اپنا ہاتھ تک نظر آنے نہیں دیا تھا اسکا وجود ڈھیلا ہونے لگا وہ سیدھی زمیں پر لیٹ گئی۔
😭😭😭😭😭😭
ReplyDelete