Posts

Showing posts from 2019
عورت اور معاشرہ ذرا اپنے دماغ پر زور دیں تو  ہمیشہ آپ کے کانوں میں پڑنے والی باز گشت آپ کو یہی موضوع دہرانے پر مجبور کرے گی کہ اسلام میں عورت کا مقام کیا ہے؟ کیا یہ کسی ایسے محرک کی طرف اشارہ ہے جو کہ ایک طرف عورت کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کرتا ہے جب کہ دوسری طرف اسے مذہب اورمعاشرے کے اس پر کیے جانے والےاحسانات کےبوجھ تلے اتنا دبا دیتا ہے کہ وہ کبھی سر اٹھا کر جی نہ سکے۔ میرا بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھنے کا مقصد سیکولر اور مذہبی دنیا کی بڑھتی ہوئی تفریق کو کم کرنا اور موجودہ معاشرے میں مذہب کی ضرورت پر بات کرنا ہے۔  زندگی کے مختلف  معاشرتی، معاشی، اقتصادی، نفسیاتی اور جنسی پہلووں پر لکھے جانے والے میرے تمام بلاگز اس مسئلے کے تناظر میں بات کریں گے۔ اس تعارفی بلاگ کا مقصد عورت اور مرد کے معاشرتی اور مذہبی مقام کو لے کر چند بنیادی پہلووں پر نظر ڈالنا ہے۔ عورت اور مرد کا تعلق ایک یک طرفہ تعلق نہیں ہو سکتا۔ یہ باہمی تعلق ہے۔ بات چاہے مذہبی اقدار کی ہو یا معاشرتی اقدار کی۔ مسئلہ معاشی ہو یا جنسی تعلق کا۔ بات دنیا کی ہو یا آخرت کی۔ اس بات سے آپ انکار نہیں کر سکیں گے کہ یہ معاش...
پتھروں کی قید باھر جون کے آخری دنوں کا سورج قیامت اٹھائے کھڑا تھا اور اندر وہ اپنی تمام حشر سامانیاں لیے میرے سامنے بیٹھی تھی. بالوں کا جوڑا سر کے پیچھے گردن اٹھائے ہوئے تھا. بجلی بند تھی سو پنکھا بھی بند تھا. پسینہ ماتھے پہ موتیوں کی طرح بکھرا پڑا تھا. کان کے پیچھے سے پسینہ لمبی صراحی جیسی گردن پہ نئے راستے کھوجتا سینے کی طرف گامزن تھا. گرمی کی مہربانی سے دوپٹہ میز پہ دھرا تھا اور وہ لان کی پتلی قمیض سے مجھ پہ دو نالی بندوق تانے بیٹھی تھی. "کب تک راشی کب تک، ایسے سب کے سونے کے بعد دوپہر کالی کرنے آتی رہوں گی، چاچا کمال رشتے کی بات کر چکے ہیں ابا سے، سب راضی ہیں، میں کیا کروں، تم کیا کرو گے" اس کی بھوری آنکھوں میں التجائیں تیر رہی تھیں "مجھے دے گا رشتہ تمہارا ابا؟ کیا ہے میرے پاس، یہ اماں ابا کا چھوڑا ہوا گھر، یہ ایک سکول ویگن اور بس؟ میں موچی کا پتر ہوں آسیہ ،تُو سیدانی ہے، تیرے ابا کے مریدوں کے جوتوں کی عزت مجھ سے زیادہ " بات مکمل بھی نہ ہونے دی اس نے اور میرے ہونٹوں پہ اپنے رس بھرے ہونٹوں کی مہر لگا دی. وہ آدھی چارپائی اور آدھی میری داہنی ٹانگ پہ بیٹھی...
مظلومیت جاہلیت   تو   جاہلیت   عورت   دشمنی   میں   ہمارے   سماج   کا   دانشور   طبقہ   بھی   کس   قدر   پیش   پیش   رہا۔ ‏ اس   تعصّب   کی   جڑیں   تاریخ   کی   ناہموار   زمین   میں   بہت   گہری   ہیں۔   فلسفے   اور   مذہب   کے   شارحین   نے   عورت   کو   ایک   وحشی،   نجس،   بے عقل   اور   نامکمّل   مخلوق   بنا   کرمعاشرے   کے   آگے   مضحکہ   خیز   انداز   میں   پیش   کیا۔ سقراط   نے   اسے   دفلی   کادرخت   قرار   دیا   توافلاطون   نے   کہا   کہ   مردوں   کے   برے   اعمال   انہیں   عورت   بنا   دیتے   ہیں،   ارسطو   نے   اپنے آقاؤں   کی   تقلید   میں   مرد   کو   بادشاہ   اور ...
فریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورج سر اٹھاتا ہے تو مشرقی کناروں سے رنگ پھوٹنے لگتے ہیں اور دن چڑھتا ہے، ہر سو روشنی ہو جاتی ہے.. صبح اچھی خبر کا استعارہ ہے.. مگر اسی صبح کی ایک خرابی ہے کہ سب کھُلنے لگتا ہے، روشنی میں ہر شے دکھائی دینے لگتی ہے.. من کے کعبـے میں رکھے سینکڑوں بُت رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگتے ہیں... فلک کو چیرتے عقیدت کے مینار گرنے لگتے ہیں... ماتھے پہ لگیں سجدوں کی مہریں، کلنک کا ٹیکا بن جاتی ہیں...کائنات کی تخلیق جو ہمارے لیے کی گئی تھی، ایک سازش لگتی ہے.. خونیں سازش.. ہمارے آگے کائنات کو کیسا پراسرار بنا کے رکھا گیا، ہم انگلیاں دانتوں میں دبا کے رہ گئے... جب روشنی ملی سب کھُلنے لگا تو وہی عقیدوں کی انگلیاں اپنے ہی دانتوں سے چبا ڈالیں..  وہ جو امن و محبت کے سبق ساتویں آسمان سے اترے صحیفوں میں لکھے گئے، معاشرے میں سب دھوکہ نکلے... انھیں صحیفوں سے نفرت کے وہ طوفان اٹھے کہ زمین جو کبھی نیلی تھی، خون رنگ ہو گئی... انھیں صحیفوں نے کالی سیاہی سے لہو رنگ سرخ سیاہی تک کا سفر دنوں میں طے کیا... صبح سے شام تک کا سفر اپنی ذات کا سفر ٹھہرا... جو رات کے دھوکے ہمیں گھٹی میں پلائے گئے، دن کی ...
چڑیا اور پنکھا  چھت پہ لٹکتے پنکھے کے پَر کے ساتھ چڑیا کا ایک پَر بھی لٹک رہا تھا.. شاید گرمیوں کی دھوپ سے بچتی کوئی چڑیا ہمارے برآمدے میں آ گھسی اور چلتے پنکھے کے ہاتھوں مَر گئی... ہم چار بہن بھائی تھے، دو بڑی بہنیں اور پھر میں اور چھوٹا بھائی.. زمیندار لوگ تھے ہم.. چونکہ ابا اکلوتے تھے تو دادا کی طرف سے ساری جائیداد اکیلے ابا کو ملی سو ہمارا گزارا باقی رشتے داروں سے بہت بہتر ہوتا تھا... باجی نورین سب سے بڑی تھیں ہم میں اور وہ ہمارا خیال ماں سے بھی زیادہ رکھتی تھیں.. باجی اتنی پتلی تھیں کہ ہم انھیں باجی چڑیا کہا کرتے تھے... پانچویں تک ہی پڑھی تھیں، چھٹی جماعت کے لیے گاؤں سے دس کلومیٹر دور قصبے میں جانا پڑتا تھا اور ابا کو یہ پسند نہیں تھا کہ باجی لڑکوں کے ساتھ ویگن میں سفر کریں سو ابا نے چوراسی ماڈل ٹویوٹا کرولا خریدی اور ڈرائیور کے طور پہ اپنے بھتیجے کو ذمہ داری سونپ دی.. مگر چھے ہی ماہ میں ابا کو لگنے لگا کہ وہ بھتیجا بھی باقی لڑکوں کی طرح کا ہی ہے سو گاڑی بیچ دی اور باجی نورین کا سکول ختم ہو گیا... مجھے غیر نصابی کتب کی طرف اور موسیقی کی ایک الگ ہی دنیا میں لے جان...
ہم ٹھہرے افضل۔ میں اکثر سوچتا ہوتا ہو چھٹی ،ساتویں صدی عیسوی میں جب ہمارے افضل قوم کے ہیرو محمد بن قاسم برصغیر پر حکومت کے خواب لے کر راجہ داھر سے جنگ کی تیاری میں مشغول تھے تو ادھر مغرب میں جاہل قوم دنیا میں ایک عظیم درس گاہ کی تعمیر کے پلان بنا رہی تھی جسے دسویں صدی میں مکمل کرکے عظیم آکسفورڈ یونیورسٹی کا نام دیا گیا۔ بارہویں صدی میں ہمارے ہیرو محمود غزنوی جب سومنات کے مندر لوٹنے کی تیاری میں مصروف تھے ادھر جاہل معاشرے نے ایک اور عظیم درسگاہ تعمیر کرنے کا سوچا جیسے ہم اج کیمبرج یونیورسٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ افضل قوم کے افضل ہیروز نے صرف جنگیں لڑیں انسانیت کو قتل کیا بیس بیس پچاس پچاس شادیاں کی سینکڑوں بچے پیدا کیئے اور ان بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے سلطنتیں فتح کی انکی بادشاہت کی۔ لاکھوں انسان قتل کیئے لاکھوں غلام بنائے۔ جاہل قوموں نے انسان کے شعور و عقل کیلئے عظیم درسگاہیں بنائی مزدورں کو بھی ا نسانیت کے حقوق دیئے۔   غلامی ختم کی۔ ادھر 1526 ء میں ظہیر الدین بابر نے پانی پت کی جنگ میں دہلی کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر برضغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رک...