Posts

ٹرانس جینڈر ایکٹ (اردو متن)

اسے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائیٹس) ایکٹ 2018 کہا جا سکتا ہے۔  اِس کا اطلاق پاکستان میں ہر جگہ ہو گا۔ اِس کا اطلاق فوری ہو گا۔ چیپٹر نمبر ایک: تعاریف (Definitions) تعریف یا ڈیفینیشنز میں ایکٹ برائے جینڈر پروٹیکشن رائیٹس، سی این آئی سی یعنی شناختی کارڈ، کمپلینینٹ یعنی شکایت کُنندہ، سی آر سی مطلب بچوں کا رِجسٹریشن فارم یا فارم ب / بی، جینڈر ایکسپریشن کا مطلب کِسی شخص کی صنفی شِناخت وُہ خُود یا دُوسرے کیسے کرتے ہیں، جینڈر آئیڈینٹیٹی یعنی صنفی شِناخت کا مطلب کہ وہ شخص اندر سے خُود کو کیسا محسوس کرتا ہے، بطور مرد، عورت، کُچھ کُچھ دونوں یا کُچھ بھی نہیں۔ یہ شناخت پیدائش کے وقت دِی گئی صنفی شِناخت سے مُطابقت رکھ سکتی ہے اور نہیں بھی رکھ سکتی۔ اِس کے بعد گورنمنٹ یعنی حکومت سے مُراد وفاقی حکومت ہے۔ ہراسمنٹ سے مُراد یا ہراسمنٹ میں جِنسی، جِسمانی، ذہنی اور نفسیاتی ہراسمنٹ مُراد ہے جِس کا مطلب یہ ہے کہ سیکس کے لیے متشدد رویے، دباؤ، ناپسندیدہ سیکشوئل ایڈوائس، دعوت دینا وغیرہ سمیت ایسے تمام رویے جو اِس ضِمن میں آتے ہیں وہ ہراسمنٹ کہلائے جائیں گے۔ نادرا کا مطلب شِناختی کارڈ و اعداد و شمار ...

گڑیا

 وہ اپنا بدبودار جانوروں جیسا وجود لے کر گڑیا کے اوپر جھک رہا تھا اور گڑیا جیسے ایک لاش کی مانند آنکھوں میں پانی کا سمندر لئے چھت کو گھور رہی تھی منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی لیکن اندر دنیا جہاں کا شور تھا، نام تھا یاسمین ابا پیار سے گڑیا کہتے تھے، پھر گھر والے رشتہ دار محلے والے سب گڑیا کہنے لگے، گڑیا تین بھائیوں اور اور دو بہوں میں سب سے چھوٹی تھی، باپ قدرت اللہ گاؤں کی ایک چھوٹی سی مسجد کا امام تھا ماں ایک سیدھی سادھی گھر دار خاتون تھی قدرت  اللہ کی بات ماں کیلئے فرض ہوا کرتی تھی، وقت گزرا گڑیا نے بھی باقی بہن بھائیوں کی طرح گاؤں میں موجود پرائمری سکول سے پانچویں پاس کی اور گھر داری میں مصروف ہوگئی، ابا کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی گڑیا کے ہاتھ پیلے ہوتے دیکھے، لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی قدرت اللہ عشاء کی نماز پڑھا کر واپس گھر آیا لیکن صبح فجر کی نماز کیلئے اٹھ نہ سکا،  گڑیا کیلئے یہ دکھ آسمان کے پھٹ جانے سے کم نہیں تھا اسکا باپ ہی تو گھر میں ایک انسان تھا جو گڑیا سے پیار کرتا تھا اسکا ماتھا چومتا تھا، گڑیا بڑی ہورہی تھی جوانی کی دہلیز پر پہنچ کر بھی اس نے شرم و حیاء ...
  لڑائی  محلے میں شائستہ کی چیخیں اور اس کے چار چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں تھیں اور آدھا محلہ چھت کی منڈیر پہ اور باقی آدھا اپنے گھروں کے دروازے کے باھر کھڑا تبصرہ کر رہا تھا کہ یہ تو روز کا معمول ہے، جیدے (جاوید) کا دماغ ہر وقت تپتی کڑاہی میں رہتا ہے، شیستا (شائستہ) بیچاری کی تو ہاری گئی جاوید اور شائستہ کی شادی کو چار سال سے اوپر ہو گئے تھے. جب شائستہ پہلی بار دلہن بنی گھر پہنچی تو محلے کی کتنی ہی خواتین جل بھن گئی تھیں. ایک تو شائستہ کا سرخ لہنگا بہت خوبصورت تھا، اس پہ شائستہ کے چست بدن پہ سج بھی بہت رہا تھا. دوسری وجہ شائستہ کی صاف رنگت اور اونچا قد تھا. جاوید کی لاٹری نکل آنے پہ خوش جاوید کے سوا اور کون ہو سکتا تھا پہلی لڑائی کب ہوئی ہو گی، معلوم نہیں.. مگر پہلی لڑائی جو سارے محلے میں سنی گئی، وہ شادی کے تیسرے چوتھے ہی ہفتے میں ہوئی تھی. بات گالیوں سے نکل کے مار پیٹ تک پہنچ گئی تھی جب محلے والے چھڑانے پہنچے جاوید اپنی بجلی کے ساز و سامان کی دوکان سے لوٹا تھا اور شائستہ نے ابھی تک توا چولہے پہ نہیں دھرا تھا. سو جاوید کا دماغ چولہے پہ چڑھ گیا اور لڑائی مارپیٹ سے 'طلاق' تک...
میرا اور تمہارا خدا ایک صاحب جو خدا اور مذہب سے خاصے بیزار ہیں مجھ سے بولے کہ انسان اپنے ہونے کا، اپنے آس پاس ہر شے کے ہونے کا سبب اس کے پیچھے چھپی ہوئی کسی ان دیکھی یا ماورائے عقل تحریک میں کیوں ڈھونڈتا ہے؟ سائنس، منطق، لاجک، ذہانت، ارتقائی عمل اور مشاہدے پر اکتفا کر کے ہی کوئی کھوج کیوں نہیں نکالتا؟ یہ خدا پرستی کیوں نہیں جاتی لوگوں میں سے؟ میں نے کہا معنویت کے حصول میں آزاد انسان پر پابندی کیوں، آپ بھلے فری تھنکر بنیں لیکن یہ فکری زور زبردستی کیسی۔ جو جیسے کر رہا ہے کرنے دیں۔ ڈھونڈنے دیں جو جیسے ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ یہ سب گھڑی گھڑائی گیم لگتی ہے حکمرانوں اور راجدھانیوں کی تاکہ انسان کو مذہبی گروہوں میں بانٹ کر ان میں تفرقہ ڈالا جائے اور ان پر نسل در نسل حکومت کی جا سکے۔ بولے کہ ان قِصوں کے ذریعے متلاشی انسان کو معنویت دیتے خدا کے نام پر قابو کر کے ریاست کی اطاعت درکار ہوتی ہے۔ کہنے لگے کہ کوئی ایشور اور اس کا مظہر بنے رنگ برنگے بھگوان بنا رہا ہے، کوئی خدا کو عرش پر بٹھا کر اور اس کے لاکھوں برگزیدہ بندے اور فرشتے گِنوا رہا ہے۔ کوئی مریم کا خداوند سے ر...
عیسائیت ہو یا اسلام “جہالت کو ملائیت پر فخر ہے یہ 14 ویں صدی کے وسط 1347 – 1350 کی بات ہے یورپ کو طاعون کی بیماری نے پکڑ لیا اور یورپ کی 5 کروڑ آبادی اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئی مشرق وسطیٰ، ہندوستان اور چین کو ملا کر اس طاعون نے کم از کم 7 کروڑ 50 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس زمانے کو آج “سیاہ موت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ طاعون ایک وبائی مرض ہے جو چوہوں سے پھیلتی ہے اور انسانوں کو منتقل ہوکر دنوں کے اندر بستیاں ویران کردیتی تھی جو بستی ویران نا ہوتی اسے اجاڑ دیتی تھی۔ اسکا واحد حل گھر میں قید ہوجانا تھا اور پھر سائنسدان نے اسکا علاج دریافت کرلیا طاعون آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر اب جان لیوا نہیں رہا۔ یہ سب بتانے کا مقصد ہے کہ یورپ میں جب طاعون پھیلا تو سرکار کی طرف سے صفائی کا خیال رکھنے اور گھروں میں رہنے کے احکامات جاری ہوئے مگر اس وقت یورپ میں چرچ کی حکومت تھی پادریوں نے اسے “خدا کا عذاب” کہا اور اعلانات کرکے لوگوں دعا اور توبہ کے نام پر چرچ میں بڑے بڑے اجتماعات کرنے شروع کردئیے اور لوگ چرچ جاتے پادریوں کو چندہ دیتے اور واپسی پر طاعون کی بیماری لیکر گھر مرنے آ جاتے۔ ج...
عورت اور معاشرہ ذرا اپنے دماغ پر زور دیں تو  ہمیشہ آپ کے کانوں میں پڑنے والی باز گشت آپ کو یہی موضوع دہرانے پر مجبور کرے گی کہ اسلام میں عورت کا مقام کیا ہے؟ کیا یہ کسی ایسے محرک کی طرف اشارہ ہے جو کہ ایک طرف عورت کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کرتا ہے جب کہ دوسری طرف اسے مذہب اورمعاشرے کے اس پر کیے جانے والےاحسانات کےبوجھ تلے اتنا دبا دیتا ہے کہ وہ کبھی سر اٹھا کر جی نہ سکے۔ میرا بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھنے کا مقصد سیکولر اور مذہبی دنیا کی بڑھتی ہوئی تفریق کو کم کرنا اور موجودہ معاشرے میں مذہب کی ضرورت پر بات کرنا ہے۔  زندگی کے مختلف  معاشرتی، معاشی، اقتصادی، نفسیاتی اور جنسی پہلووں پر لکھے جانے والے میرے تمام بلاگز اس مسئلے کے تناظر میں بات کریں گے۔ اس تعارفی بلاگ کا مقصد عورت اور مرد کے معاشرتی اور مذہبی مقام کو لے کر چند بنیادی پہلووں پر نظر ڈالنا ہے۔ عورت اور مرد کا تعلق ایک یک طرفہ تعلق نہیں ہو سکتا۔ یہ باہمی تعلق ہے۔ بات چاہے مذہبی اقدار کی ہو یا معاشرتی اقدار کی۔ مسئلہ معاشی ہو یا جنسی تعلق کا۔ بات دنیا کی ہو یا آخرت کی۔ اس بات سے آپ انکار نہیں کر سکیں گے کہ یہ معاش...